(درمیان میں ایک سورت چھوڑ کرنماز پڑھاناکیساہے؟)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
علماء ذول الاحترام مندرجہ ذیل مسئلہ میں حکم شرع کیا ہے وضاحت فرمائیں ایک امام صاحب نماز میں اکثر پہلی رکعت میں سورہ قریش اور دوسری میں سورہ کوثر پڑھتے ہیں اس طرح پڑھنے سے منع کرنے پر لڑائی پر آمادہ ہوجاتے ہیں ، دریافت طلب امر یہ کہ اس طریقے پر نماز پڑھانا کیسا ہے اور اس کا طریقہ کیا ہونا چاہئے ، دوسرے یہ کہ کیا ایسے امام کو برطرف کرنے میں شرعی گرفت ہے یا نہیں؟
سائل ۔ محمد شمیم مہراج گنج یوپی
علماء ذول الاحترام مندرجہ ذیل مسئلہ میں حکم شرع کیا ہے وضاحت فرمائیں ایک امام صاحب نماز میں اکثر پہلی رکعت میں سورہ قریش اور دوسری میں سورہ کوثر پڑھتے ہیں اس طرح پڑھنے سے منع کرنے پر لڑائی پر آمادہ ہوجاتے ہیں ، دریافت طلب امر یہ کہ اس طریقے پر نماز پڑھانا کیسا ہے اور اس کا طریقہ کیا ہونا چاہئے ، دوسرے یہ کہ کیا ایسے امام کو برطرف کرنے میں شرعی گرفت ہے یا نہیں؟
سائل ۔ محمد شمیم مہراج گنج یوپی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب ،اللهم هداية الحق والصواب
صورت مذکورہ میں نماز ہو جاتی ہے،لیکن فقہائے کرام نے اسے مکروہ تنزیہی لکھا ہے:فتاوی ہندیہ میں ہے:وَإِنْ كَانَ بَيْنَهُمَا سُورَةٌ وَاحِدَةٌ قَالَ بَعْضُهُمْ: يُكْرَهُ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: إنْ كَانَتْ السُّورَةُ طَوِيلَةً لَا يُكْرَهُ. هَكَذَا فِي الْمُحِيطِ. كَمَا إذَا كَانَ بَيْنَهُمَا سُورَتَانِ قَصِيرَتَانِ، كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ.اور اگر دورکعتوں میں دو سورتیں پڑھے تو اگر ان دونوں ہی میں کئ سورہ کا فصل ہے تو مکروہ نہیں ، اور اگر ایک سورہ کا فصل ہے تو بعضوں نے کہا ہے مکروہ ہے ، اور بعضوں نے کہا ہے کہ اگر بڑی سورہ کا فصل ہے تو مکروہ نہیں یہ محیط میں لکھا ہے جیسے کہ دو چھوٹی سورۃ کے فصل میں مکروہ نہیں یہ خلاصہ میں لکھا ہے(ج ١ ص ٨٧ مکتبہ بیروت لبنان)
فتاوی رضویہ میں ہے:فرائض میں ایسا کرنا مکروہ ہے جیسے کہ سورہ نصر اور سورہ اخلاص کا پڑھنا اور درمیان میں دو صورتیں ہوں تو پھر کوئی مضائقہ نہیں مثلا سورہ نصر اور سورہ فلق( ج ٦ ص ٢٦٨ ادبی دنیا دہلی)
بہار شریعت میں ہے:پہلی رکعت میں کوئی سورت پڑھی اور دوسری میں ایک چھوٹی سورت درمیان سے چھوڑ کر پڑھی تو مکروہ ہے اور اگر وہ درمیان کی سورت بڑی ہے کہ اس کو پڑھے تو دوسری کی قراء ت پہلی سے طویل ہو جائے گی تو حرج نہیں ، جیسے وَ التِّیْنِ کے بعد اِنَّاۤ اَنْزَلْنَا پڑھنے میں حرج نہیں اور اِذَا جَآءَکے بعد قُلْ هُوَ اللّٰهُ پڑھنا نہ چاہئیے(ج ١ ص ٥٤٩ دعوت اسلامی)
نیز یہ کہ کسی نماز میں کوئی سورت پڑھنے کے لیے خاص کر دینا یہ بھی مکروہ تنزیہی ہے اگر کوئی شرعی مجبوری نہ ہو تو فتاوی ہندیہ میں ہے :وَيُكْرَهُ أَنْ يُوَقِّتَ شَيْئًا مِنْ الْقُرْآنِ لِشَيْءٍ مِنْ الصَّلَوَاتِ قَالَ الطَّحْطَاوِيُّ وَالْإِسْبِيجَابِيّ هَذَا إذَا رَآهُ حَتْمًا وَاجِبًا بِحَيْثُ لَا يَجُوزُ غَيْرُهُ أَوْ رَأَى قِرَاءَةَ غَيْرِهِ مَكْرُوهَةً وَأَمَّا إذَا قَرَأَ لِأَجْلِ الْيُسْرِ عَلَيْهِ أَوْ تَبَرُّكًا بِقِرَاءَتِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا كَرَاهِيَةَ فِي ذَلِكَ وَلَكِنْ يُشْتَرَطُ أَنْ يَقْرَأَ غَيْرُهُ أَحْيَانًا لِئَلَّا يَظُنَّ الْجَاهِلُ أَنَّ غَيْرَهُ لَا يَجُوزُ. هَكَذَا فِي التَّبْيِينِ."اور مکروہ ہے کسی نماز کے واسطے کوئی سورت مقرر کر لے طحاوی اور اسبیجابی نے یہ کہا ہے یہ حکم اس وقت ہے کہ اس نماز میں اس سورت کو اس طرح یقینی واجب سمجھ لے کہ اس کے سوا اور سورت کو ناجائز یا مکروہ سمجھ لے لیکن اگر آسانی کے واسطے کوئی سورت مقرر کر لے یا جو سورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوئی ہے اس کو تبرکاً پڑھا کرے تو اس میں کراہت نہیں لیکن اس میں بھی شرط یہ ہے کہ اس کے سوا کبھی کبھی اور صورت بھی پڑھا کرے تاکہ کوئی جاہل یہ نہ سمجھ لے کہ اس کے سوا اور کوئی سورت جائز نہیں یہ تبیین میں لکھا ہے(ج ١ ص ٨٦ مکتبہ بیروت لبنان)
نوٹ ، امام صاحب کو شرعی مسئلہ سے آگاہ فرمائیں اور امام صاحب کو اپنے اس فعل سے توبہ کرنی چاہیے ، اگر حکم شرع کو تسلیم نہیں کرتے ہیں تو امامت سے برطرف کرسکتے ہیں کوئی حرج نہیں.واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب
کتبہ
محمد معراج رضوی واحدی
نوٹ ، امام صاحب کو شرعی مسئلہ سے آگاہ فرمائیں اور امام صاحب کو اپنے اس فعل سے توبہ کرنی چاہیے ، اگر حکم شرع کو تسلیم نہیں کرتے ہیں تو امامت سے برطرف کرسکتے ہیں کوئی حرج نہیں.واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب
کتبہ
محمد معراج رضوی واحدی
ایک تبصرہ شائع کریں